محبوب الٰہی حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کو سماع کا بے حد شوق تھااور سماع سے ان کے جذب اور عشق میں تحریک ہوتی تھی۔ایک بار حضرت محبوب الٰہی نے
حالتِ جذب میں فرمایاکہ ’’ دھوبن کا لڑکا بازی لے گیا‘‘ امیر خسرو بھی وہاں موجود تھے مصاحبین نے امیر خسرو سے کہا ’’ آپ مرشد کریم سے معلوم کریں کہ
اس کا مطلب کیا ہے؟‘‘ امیر خسرو مزاج آشنا ئے خواجہ تھے جواب دیا ’’اس وقت مرشد حالت جذب میں ہیں اس لیے میں ان سے بعد میں بات کروں
گا۔دوستوں نے پوچھا ’’ہم کب تک اس کی امید رکھیں؟‘‘ امیر خسرو نے جواب دیا ’’دو چار دن میں ‘‘۔اس وقت آپ ؒ کی طبیعت معمول پر آجائے گی پھر میں ان
سے بات کروں گا۔امیر خسرو نے تیسر ے دن اپنے پیرو مرشد کو ہشاش بشاش پایاوہ بہت خوش تھے۔ امیر خسرو نے موقع غنیمت دیکھ کر پوچھا’’ حضر ت آپ سے
کچھ پوچھنا ہے؟‘‘ آپ ؒ نے اجازت دے دی۔’’خسرو پوچھو کیا پوچھنا ہے؟‘‘ امیرخسرو نے عرض کیا آپ نے کچھ دن پہلے حالت وجد کے دوران فرمایا تھا کہ ’’
دھوبن کا لڑکا بازی لے گیا۔دھوبن کا لڑکاکس طرح بازی لے گیا؟‘‘ تمام دوست اس کی تفصیل جاننے کے لیے بے چین ہیں۔حضرت محبوب الٰہی نے امیر خسرو کو
سمجھایااس واقعے میں ایک ایسے عاشق کی داستان پنہاں ہے جو زبردست مثال ہے اور عارفان عشق و محبت کے لیے اس میں عبرت اور رشک کا سبق پایا جاتا ہے ۔
سنو اور اس جیسا بننے کی کوشش کرو۔
حضرت امیر خسرو اپنے مرشد کے شیدائی تھے پوری محویت و انہماک سے ان کی باتیں سن رہے تھے۔ حضرت محبوب الٰہی فرمارہے تھے ۔ ’’وہ شاہی دھوبن تھی محل
سے کپڑے آتے تھے اور پورا کنبہ ان کی دھلائی اور صفائی میں مشغول ہو جاتا تھا ۔ دھوبن کا لڑکا بھی ان میں شامل تھالڑکے نے شہزادی کے کپڑوں کواپنے لیے پسند
کر لیاتھا وہ ان کپڑوں کو دیکھتاان کی بو سونگھتااور شہزادی کے لیے اپنے دل میں ایک کسک سی محسو س کرتا ۔فارغ اوقات میں وہ شہزادی کے خیالی وجود سے باتیں
کرتا رہتا۔اُن باتوں کو جب زیادہ وقت گزر گیا تو اس کی محبت میں شد ت بھی زیادہ پیدا ہوگئی پھر گھر والے بھی اس راز سے آگاہ ہوگئے۔اس کے والدین کو فکر لاحق
ہوئی کہ اگر یہ بات کسی طرح مشہور ہوکر محل کے اند ر پہنچ گئی تو بادشاہ کا عتاب اور جلال اس کے خاندان کو تباہ و برباد کر کے رکھ دے گا۔
دھوبی نے بیوی کو سمجھایا’’ نیک بخت اس کو سمجھاکہ یہ پاگل پن چھوڑ دے‘‘۔
دھوبن نے جواب دیا ’’میں سمجھاؤں گی ضرور لیکن مجھے یقین نہیں کہ اس پر میری نصیحتوں کا اثر ہوگا‘‘۔
دھوبی نے کہا ’’ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اپناپاگل پن چھوڑے گا نہیں اور ہم سب بلاوجہ مارے جائیں گے‘‘۔
دھوبن کی سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا کہ وہ کیا تدبیر کرئے جس سے اس کا لڑکا اپنے اس لاحاصل عشق سے باز آجائے۔کافی غور و فکر کے بعد دھوبن کے ذہن میں ایک
تدبیر آگئی ۔ کچھ دن بعد اپنے بیٹے کے پاس سوگوارسی گئی اور بیٹے سے پوچھا ’’ توکیا کر رہا ہے؟‘‘
بیٹے نے جواب دیا !’’ شہزادی کے کپڑے تہہ کررہا ہوں‘‘
دھوبن آنکھوں میں آنسو بھر کر کہنے لگی ’’افسوس کہ اب تو یہ کام نہیں کر سکے گا‘‘
لڑکے نے پوچھا ’’کیوں؟‘‘
دھوبن نے جواب دیا ’’ وہ آشیانہ ہی نہ رہا جس پر تجھے ناز تھا‘‘
لڑکے نے سارے کپڑے ایک طرف رکھ دیئے اور پوچھا ’’ ماں! کیا بات ہے ؟ ذرا صاف صاف بتائیں۔
دھوبن نے کہا ’’ آج میں محل گئی تھی وہاں کہرام برپا تھا محل کے درو دیوار آنسو بہا رہے تھے‘‘۔
لڑکے کا دل ڈوبنے لگا’’ ماں! مجھے صاف صاف بتائیں کہ معاملہ کیا ہے؟‘‘
دھوبن نے جواب دیا ’’ محل کی کنیزیں بتارہی تھیں کہ شہزادی کے پیٹ میں اچانک درد اٹھا اس درد میں وہ رات بھر تڑپتی رہی۔ طبیبوں نے رات بھر علاج کیا اور
آخر صبح کو شہزادی چل بسی اور پورے محل کو روتا چھوڑ گئی‘‘۔
بیٹے نے پوچھا : ’’ کیا یہ خبر سچ ہے ؟‘‘۔
دھوبن نے جواب دیا ۔ ’’ کیا تو سمجھتا ہے کہ میں زندہ شہزادی کو خواہ مخواہ مارسکتی ہوں؟‘‘۔
بیٹے نے حسرت سے کہا’’ ماں ! یہ تونے کیسی خبر سنائی افسوس کہ میں بے خبر رہا‘‘۔
ماں نے اسے تسلی دی ’’ ہاں بیٹے! موت پر کس کو اختیا ر ہے اور کسی کو بھی کچھ پتا نہیں کہ اس کی موت کب اور کہاں واقع ہو جائے‘‘۔
لڑکے نے سردآہ بھری ’’ درست ….. بجا….. موت کا کوئی بھروسا نہیں کہ کب اور کہا ں آجائے‘‘۔
ماں نے محسوس کیا کہ بیٹے کی حالت ٹھیک نہیں ہے وہ سرد پڑتا جا رہاتھا۔ سرد اور زرد….
لڑکے نے شہزادی کے کپڑوں کو بوسہ دیا ’’ تو اب میں بے کا رہو گیا ……. میرا کام مجھ سے چھن گیا اور جب کرنے کو کام ہی نہ رہے تو زندگی بے کار ہے‘‘ ۔ماں نے
اسکا ہاتھ پکڑ لیا’’ یہ تو کیا کہہ رہا ہے؟‘‘۔ماں نے اسکا ہاتھ برف کہ طرح سرد محسوس کیا ’’ یہ تیرے ہاتھ اتنے ٹھنڈے کیوں ہیں ؟‘‘۔بیٹے نے کوئی جواب نہ دیا
اورگرتا چلا گیا ۔ ماں نے اسکو سنبھالنے کی کوشش کی مگر لڑکا زمین پر گرگیا۔
ماں نے شور مچایا’’ لوگو دوڑنا دیکھنا میرے بیٹے کو کیا ہو گیا ہے؟‘‘۔
برادری والے بھی آگئے اور دھوبی بھی آگیا اور فرش پر دراز بیٹے کی طرف اشارہ کر کے پوچھا ’’ اس کو کیا ہو گیا؟‘‘۔
دھوبن نے جواب دیا ’’ یہی جاننے کے لیے تو میں نے تم سب کو آواز دی ہے۔‘‘
برادری والوں نے لڑکے کی نبضیں ٹٹولیں اور انہیں نہ پا کر اعلان کر دیا کہ ’’ یہ تو مر گیایہ زندہ ہی کب ہے؟‘‘۔
باپ نے بڑے قلق آمیز لہجے میں کہا’’ اپنی زبان سنبھالو کیسی بری بات نکال رہے ہو۔ تم لوگ جانتے بھی ہوکہ کیا کہہ رہے ہو‘‘۔
ایک بزرگ نے جواب دیا ’’ بھائی !ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں سچ کہہ رہے ہیں تیرا لڑکا مرگیا ہے جس سے چاہے تصدیق کرالے‘‘۔اب تو پوری برادری میں کہرام برپا
ہوگیا۔دھوبی نے دھوبن سے پوچھا لیکن یہ اچانک کس طرح ہو گیا۔دھوبن نے پوراواقعہ سنادیا۔ دھوبی نے دھوبن کی پٹائی کردی۔’’ تونے اپنے بیٹے کو یوں
ٹھکانے لگا دیا‘‘۔
دھوبن نے رو رو کر اپنی صفائی پیش کی ’’ میراتو یہ خیال تھا کہ اس طرح مایوس ہو کر وہ شہزادی کا پیچھا چھوڑ دے گا‘‘
دھوبی نے روتے ہوئے کہا’’ کیا خوب پیچھا چھڑایاتو نے ! کیا تجھ کو یہ نہیں معلوم تھا کہ عشق کی جو آگ دل میں روشن ہوئی تھی وہ اس طرح نہیں بجھتی۔‘‘دھوبن
روتی جاتی اور کہتی جاتی۔’’ اب تم جو چاہو کہومجھ کو مارو قتل کردو کیونکہ اپنے بیٹے کو خود میں نے ماردیا میں اسکی قاتل ہوں‘‘۔دھوبی نے کہا’’ اب میں تجھ کو کیا ماروں
گاتُوتو خود ہی جیتے جی مرگئی ‘‘۔
دھوبن محل کے اند ر جب کپڑے لے کر اندر گئی تو شہزادی کے کپڑے اس کے حوالے کیے ۔شہزادی نے ان پر ایک نظر ڈالتے ہی اعتراض کر دیا’’ اس بار میرے
کپڑے کس نے دھوئے ہیں؟‘‘دھوبن نے جواب دیا ’’ اسی نے جو ہر مرتبہ دھوتا ہے‘‘۔
شہزادی نے کہا’’ جھوٹ بالکل جھوٹ یہ میں نہیں مانوں گی‘‘۔
دھوبن نے حیرت سے پوچھا ’’ وہ کیوں؟ اس میں ایسا کیا فرق نظر آیا آپ کو‘‘۔
شہزادی نے جواب دیا ’’ کپڑوں کی دھلائی اوران کے بناؤ سنوارمیں جو بات پائی جاتی تھی اس بار نہیں ہے‘‘۔
دھوبن خاموش ہوگئی ۔ شہزادی نے پوچھا ’’دھوبن! تو خاموش کیوں ہو گئی؟ جواب کیوں نہیں دیتی؟ ‘‘ شہزادی نے اصرار کیا ’’ کیا بات ہے ؟ تو خاموش کیوں ہو گئی
میرے سوال کا جواب کیوں نہیں دے رہی؟‘‘۔
دھوبن نے ڈرتے ڈرتے کہا’’ شہزادی صاحبہ ! میں کیا عرض کروں مجھ کو ڈر لگتا ہے کہ کہیں کوئی طوفان نہ اٹھ کھڑا ہو‘‘۔
شہزادی نے پوچھا ’’ کیسا طوفان؟ اور یہ تو رو کیوں رہی ہے؟‘‘۔
دھوبن نے ایک سرد آہ بھر ی ’’ رونا تو میرا مقدر ہے اب میں یوں ہی زندگی بھر روتی رہوں گی‘‘۔
شہزادی کو اس پر غصہ بھی آرہا تھا اور افسوس بھی ہو رہا تھا’’ دیکھ دھوبن تو سچ سچ بتا دے بات کیا ہے؟‘‘
دھوبن نے کہا’’ شہزادی صاحبہ ! آپ پہلے مجھے یہ یقین دلا دیں کہ میں آپ کو جو کچھ بتاؤں گی آپ اپنے تک ہی رکھیں گی ، چرچا نہیں کریں گی اور مجھ کو معاف کردیں
گی‘‘۔شہزادی نے وعدہ کیا اور دھوبن نے ہیر پھیر سے بتانا شروع کردیا۔’’ شہزادی صاحبہ ! میری سمجھ میں تو ابھی تک یہ نہیں آیا کہ وہ آپ کو دیکھے بغیر آپ پر
عاشق کس طرح ہو گیا؟‘‘شہزادی خاموش رہی اور اور دھوبن بولتی رہی۔ آپ کے کپڑے وہ خود دھوتا اور ان کپڑوں کی دھلائی اور بنانے سنوارنے میں آپ کو جو
سلیقہ نظر آتا تھا اس میں بھی آپ کا عشق کارفرماتھا ہم سب جب اس راز سے واقف ہوئے تو اسے سمجھانے لگے مگر وہ نہیں مانا۔
پھر شہزادی سے پوچھا آپ ہی بتائیں کہ یہ برُی بات تھی یا نہیں؟۔
شہزادی نے کہا ’’بات کو طول نہ دے مختصر کر‘‘۔
دھوبن نے کہا ’’ جب ہمارا سمجھانا کام نہ آیا تو میں نے مکرو فریب اور جھوٹ کا سہارا لیا‘‘۔
شہزاد ی کی حالت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی وہ سب کچھ ایک آن میں سن لینا چاہتی تھی بیزاری سے کہنے لگی ’’ دھوبن تو باتوں کو خواہ مخواہ طول کیوں دیتی ہے ؟ ‘‘ ۔
دھوبن نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا ’’ اور پھر میں نے رورو کریہ منحوس خبر سنائی ،جھوٹی خبر کی شہزادی کا انتقال ہو گیا اوراب تو شہزادی کے کپڑے نہیں دھو سکے
گا۔شہزادی نے پوچھا’’ پھر؟ پھر کیا ہوا؟‘‘دھوبن نے جواب دیا ’’ پھر وہ مایوس ہو کر کہنے لگا کہ …. میں کیا کروں گا زندہ رہ کر ، کیوں کہ کرنے کے لیے کوئی کام ہی
نہیں رہ گیا… وہ گرا اور مرگیا اتنا کچھ بتانے کے بعد دھوبن زارقطار رونے لگی۔
شہزادی کو اس خبر سے بڑی تکلیف پہنچی اس نے آہستہ سے کہا ’’ اتنا کچھ ہو گیا اور مجھ کو خبر تک نہ ہوئی ‘‘۔
دھوبن مسلسل روئے جا رہی تھی ’’ اگر میں یہ جانتی کہ میرے جھوٹ کا یہ اثر ہو گا تو میں کچھ بھی کرتی مگر یہ جھوٹ نہ بولتی۔‘‘
شہزادی نے کہا’’ تجھ کو اس جھوٹ کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ اس سے تم لوگوں کو کیا تکلیف پہنچ رہی تھی؟‘‘
دھوبن نے کہا’’ شہزادی صاحبہ ہمیں خوف تھا کہ یہ خبر آپ کے والد بادشاہ سلامت تک پہنچ گئی تو ہم سب ہلاک کردیئے جائیں گے‘‘۔
شہزادی نے کہا ’’ تم تو یہ کہتی ہو کہ وہ خاموش رہتا تھا اور کسی سے بات چیت بھی نہیں کرتا تھا پھر یہ بات محل تک کس طرح آجاتی؟‘‘۔
دھوبن نے جواب دیا ’’ شہزادی صاحبہ ! آپ میری برادری کو نہیں جانتیں! اس میں کون ہمار ا دوست کون ہمارا دشمن ہمیں نہیں معلوم لیکن کسی ایک کا حسد یا
دشمنی ہمیں موت کے منہ تک پہنچا سکتی تھی‘‘۔شہزادی کو لڑکے کی موت کا بڑا دکھ تھا وہ دیر تک افسوس کرتی رہی۔ شہزادی نے پوچھا’’ اس کو تم لوگوں نے دفن
کہاں کیا ہے ا س کی قبر تک مجھے لے کر جاسکتی ہو؟‘‘۔
دھوبن کو بڑی حیرت ہوئی ’’ وہاں آپ جائیں گی قبرستان پر جائیں گی؟‘‘ دھوبن کو خوف ہوا کہیں وہ شہزادی کو محل کے باہر لے جانے کے جرم میں قتل نہ کردی
جائے ۔ شہزادی نے کہا ’’ میں تیرے ساتھ تیرے بیٹے کی قبر پر ضرور جاؤں گی۔دھوبن نے کہا ’’ کب اور کس طرح؟‘‘
شہزادی نے جواب دیا ’’ کل میں کنیز کے لبا س میں محل کے عقبی دروازے سے باہر آجاؤں گی وہاں تم مجھ کو مل جانا‘‘۔دھوبن پر بادشاہ کی دہشت طاری تھی وہ اس
کام کے لیے تیار نہ تھی جب دھوبن کو یہ دھمکی دی گئی کہ اگر اس نے ایسا نہ کیا تو یہ باتیں بادشاہ تک پہنچا دی جائیں گی تو وہ تیار ہوگئی۔دوسرے دن حسب وعدہ
شہزادی کنیز کے لباس میں محل کے عقبی دروازہ سے باہر نکلی وہاں دھوبن اس کی منتظر تھی وہ دونوں لڑکے کی قبر پر گئیں۔ شہزادی قبرکو دیکھتے ہی رونے لگی۔دھوبن
بھی روتی جاتی اور شہزادی سے پوچھتی جاتی تھی ’’ آخر آپ کیوں رو رہی ہیں ؟‘‘۔
شہزادی نے جواب دیا ’’ میں یہ سوچ سوچ کر رو رہی ہوں کہ آج بھی ایسے دردمند دل موجود ہیں جو اند ر ہی اندر جل اٹھتے ہیں ۔ عشق کرنے والے خاموش عاشق۔
اس کا کتنا بڑاظرف تھا بے لوث بے غرض نہ کوئی مطالبہ نہ کوئی گلہ‘‘۔دھوبن حیران تھی کہ اس کے بیٹے کے عشق کی تعریفیں ہورہیں کچھ دیر بعد دھوبن نے کہا ’’
شہزادی صاحبہ!’’ اب آپ چلیں‘‘
شہزادی نے پوچھا’’کہاں؟کہاں چلیں ؟ ‘‘ دھوبن نے جواب دیا’’ محل وہاں آپ کو نہ پاکر ایک قیامت اٹھ کھڑ ی ہوگی‘‘۔
شہزادی وہاں بیٹھ گئی اور کہنے لگی ’’ مجھ میں چلنے کی سکت بھی نہیں رہی مجھ سے تو چلا بھی نہیں جائے گا‘‘۔
دھوبن پریشان ہونے لگی ’’ شہزادی صاحبہ ! آپ کیا کہہ رہیں آپ کو واپس اپنے محل چلنا ہے‘‘۔اب شہزادی سے بیٹھا بھی نہیں جا رہا تھا اس کا دل ڈوب رہا تھا۔’’
دھوبن یہ مجھ کو کیا ہورہا ہے مجھ سے بیٹھا بھی نہیں جا رہا میر ا دل ڈوب رہا ہے‘‘۔دھوبن نے اس کو سنبھالنے کو کوشش کی مگر وہ گر گئی اسکی حرکت قلب بند ہوگئی اور
وہ بھی خاموشی سے چل بسی۔
دھوبن نے بھاگنا چاہا لیکن شاہی ہرکاروں نے اسے گرفتار کر لیا جو خاموشی سے شہزادی اور دھوبن کا تعاقب کرتے چلے آئے تھے۔بادشاہ کے سامنے مقدمہ پیش ہوا
۔ بادشاہ نے تخلیے میں یہ روئیداد سنی اور دونوں کے حا ل پر افسوس کرنے لگا۔
اس نے دھوبن سے کہا’’ تجھے شہزادی کو اپنے ساتھ نہیں لے جانا چاہیے تھا‘‘۔
دھوبن نے عرض کی ’’ میں موت کے خوف سے شہزادی کو اپنے ساتھ لے گئی تھی‘‘۔بادشاہ نے پوچھا ’’ اب تیرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ کیا تو موت سے بچ
جائے گی؟‘‘دھوبن نے جواب دیا ’’ اب میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ اگر موت پیچھا کرلے یا کر رہی ہوتو انسان اس سے بچ نہیں سکتا اب میں مو ت سے نہیں
ڈرتی‘‘۔بادشاہ نے کہا ’’ اگر تو موت سے نہیں ڈرتی تو موت بھی تجھ سے دور دور رہے گی۔ جاؤ میں نے تجھے معاف کیا لیکن دیکھ اس کا چرچا مت کرنا اس طرح رہنا
جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو‘‘۔
دھوبن کو اپنی جاں بخشی پر یقین نہیں آرہا تھا اس نے پوچھا ’’ کیا میں جاؤں؟‘‘۔بادشاہ نے کہا ’’ ہا ں تو جا‘‘۔ دھو بن اپنے گھر چلی گئی ۔یہ واقعہ خوب مشہور ہوا مگر
بادشاہ کی موت کے بعد۔
حضر ت محبو ب الٰہی نے یہ قصہ سنانے کے بعد فرمایا ’’ ہم میں کون اتنا بڑا عاشق ہے ؟‘‘۔ کسی شے اور کسی صلے کی تمنا کئے بغیر عشق کرنا بہت دشوار امر ہے۔ عشق تو
ایک کشش ہے ۔مقنا طیس کی کشش کے دائرے میں جب لوہا آجاتا ہے تو لوہے کی اپنی طاقت اور قوت مغلوب ہو جاتی ہے اور مقناطیس کی کشش لوہے کو اپنی ذات
کے قریب کر لیتی ہے۔ مقنا طیس سے قریب ہونے سے پہلے لوہا بننا ضروری ہے یعنی مقناطیس کی کشش کے آگے لوہا اپنے آپ کو قطعی طور پر بے بس بنا لیتا ہے۔ اپنے
اندر کی تمام قوت کی نفی کرکے مقناطیس کی کشش کو قبول کرلیتا ہے تو وہ مقناطیس سے مل جاتا ہے ۔ قانون قدرت یہ ہے کہ کوئلہ جب آگ میں ڈالا جاتا ہے تو آگ
کی گرمی کو اس حد تک جذب کرلیتا ہے کہ خود آ گ بن جاتا ہے۔
اس کے بعد ایسا لگا کہ محبوب الٰہی عشق حقیقی میں جذب ہوگئے ہیں ۔ آپؒ نے فرمایا ’’ پس اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے بھی خوداپنی ذات کی نفی کرنا لازمی
ہے۔ مقناطیس کی قربت لوہے کو بھی مقناطیس بنا دیتی ہے۔ اللہ کے بندے جب اللہ کی محبت میں اس سے قریب ہو جاتے ہیں تو ان کے ہر قول اور ہر فعل میں اللہ
کی ضمانت اور مخلوق کی شہادت شامل ہو جاتی ہے‘‘۔
محبوب الٰہی کچھ دیر کے لئے خاموش ہوگئے ۔ آپ ؒ کی آنکھیں نیم وا تھیں ۔چند لمحوں بعد آپ ؒ نے نگاہیں اٹھائیں اور فرمایا’’ پتہ نہیں عشق کو غم اور دل کی لگن کو سوز
کیوں کہا گیا ہے۔ اگر عشق واقعی آگ ہے تو پھر وہ عشق نہیں ہے۔ عشق میں تو انگ انگ زعفران زار بن جاتا ہے۔ د ل میں گداز داخل ہو جائے تو آدمی کے اوپر
عالمین کی تخلیق کے اسرار کھل جاتے ہیں ۔ عشق تو اللہ کی صفت ہے۔ اللہ نو ر ہے ۔ اللہ کی ہر صفت نور ہے ۔اللہ جب نا ر نہیں تو اسکا عشق کیسے نار بن سکتا ہے۔جو
آدمی عشق کو نار اور سینے کی جلن سمجھتا ہے دراصل اس کا دل عشق کے نو ر سے خالی ہے کیونکہ نور و نار ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے ۔جس دل میں عشق الٰہی کے انوار
ذخیرہ ہو جاتے ہیں وہ دل تجلی کا ایک نقطہ بن جاتا ہے۔ عشق الٰہی کا نور قلب میں جذب
ہو کر قلب کی آنکھ بن جاتا ہے۔قلب کی آنکھ اللہ کے نور سے غیب کے عالمین کو دیکھتی ہے اور اللہ کی نعمتوں کو دیکھ کر غم نہیں بلکہ سچی خوشی حاصل ہوتی ہے۔ جو
عشق سینے میں رقابت کی آگ بھڑکائے اور دلوں میں حسد پیدا کرئے اس کو بوالہواسی کے سوا اور کوئی نام نہیں دیا جا سکتا
Check Also
اگر روح بیمار ہو تو قرآن پاک سے بہتر کوئی دوا نہیں
اگر روح بیمار ہو تو قرآن پاک سے بہتر کوئی دوا نہیں